کوئی
اسے کچھ بھی سمجھے مگر مجھے اس بات سے شدید دکھ پہنچا کہ میرا آئیڈیل
سیاسی کردار اور شفاف ترین لیڈر مخدوم جاوید ھاشمی اپنی عمر کے آخری دور
میں وہ سیاسی جماعت چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ تحریک انصاف میں جا ملا
جس کیلئے اس نے بے بہا قربانیاں دیں ۔ لیکن اگر حقائق کو سامنے رکھا جائے
تو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ سب کچھ میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کی ھٹ دھرمیوں،
غیر سیاسی ضد بازی، پارٹی کے اندر ڈکٹیٹر
شپ، اقرباپروری اور پرویز رشید جیسے خود غرض اور سیاسی بصیرت سے عاری
مشیروں کی وجہ سے ممکن ھوا ۔ اس تلخ سچ کو میاں برادران کو بھی ماننا پڑے
گا اور سیاسی ورکروں کو بھی کہ جب قربانیاں دینے والےجاوید ھاشمی جیسے جری
اور وفادار سیاسی کرداروں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جائے گا تو
نتائج یہی ھوں گے ۔ یہ صرف فاروق درویش کا ھی نہیں بلکہ سیاسی منظر سے
مستقبل پڑھنے والے ھر پاکستانی کا یقین ھے کہ اب پاکستان کے سیاسی کلچر سے
خاندانی اور موروثی سیاست کا جنازہ اٹھنے میں کچھ زیادہ دیر باقی نہیں ھے ۔
اس سلسلے میں مجھ جیسے ایک عام سیاسی ورکر پر مشرف کے ٹارچر سیلوں کو کیا
کیا بیتا ، کیس کس نے مجھ جیسے وفا پرست کو مرنے کیلئے اکیلا چھوڑا اور کون
کون نون لیگی کردار اس میں ملوث تھا اس بارے ایک مفصل مضمون آئیندہ چند
دنوں میں احباب کی خدمت میں پیش کروں گا جس کے بعد آپ احباب کو بہتر
اندازہ ھو گا کہ جاوید ھاشمی جیسے مخلص کردار کیوں مسلم لیگ چھوڑ گئے اور
فاروق درویش جیسے معمولی اور ادنی سیاسی ورکر دس برس قبل ھی کیوں سیاست سے
کنارہ کش ھوئے اور اس سارے کھیل میں پرویز رشید اور چوھدری نثار علی خان
جیسے گھناؤنے کرداروں کا کیا رول رھا ھے ۔۔۔۔۔ بس اتنا کہوں گا کوئی سیاست
دان کسی کا سچا دوست نہیں صرف اللہ ہی ھمارا سچا دوست ھے اور کم از کم میں
نے سب کچھ گنوا کر جو پایا وھی میرے ساتھ ھے مجھے اس پر فخر ھے اور وہ ھے
میری فقیری جو اللہ کی ھی عطا ھے