
راہ چلدے نوں دل نہ دیو ، چاہے لکھ چہرے تے نور ہووے
او بلھیا ! دوستی اوتھے کریو ، جتھے دوستی نبھاون دا دستور ہووے
راہ چلتے کو دل نہ دے بیٹھنا
چاہے اس کے چہرے پر نور کے کتنے ہی ہالے کیوں نہ برستے ہوں۔دوستی صرف وہیں
کرو جہاںنبھانے کا دستور موجود ہو۔
گذشتہ روز دفتر میں بیٹھا
بلوچستان کے حالات پر کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔میاں نواز شریف کے
ساتھ کھڑے بزرگ بلوچ رہنما عطاءاللہ مینگل کی باتیں سن کر پھر فیض یاد آئے
۔”ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد“16دسمبر سقوط ڈھاکہ ہوا ۔ میں نے
ملک ٹوٹتے نہیں دیکھا ۔ خدا اس ملک کے مزید ٹکڑے ہوتے نہ دکھائے۔ابھی دو
چار سطریں ہی لکھی ہوں گی کہ کسی دوست نے بتایا کہ تحریک انصاف کے بڑے جلسے
کے بعد لوگ کرسیاں لے کر بھاگ گئے۔کرسیاں ایک دوسرے پر چلتی تو کئی بار
دیکھی ہیں چند روز قبل خود تحریک انصاف کے اپنے مرکزی دفتر میں ایک دوسرے
پر کرسیوں کا آزادانہ استعمال ہوا۔ اس سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی مگر دوست
نے مجبور کر دیا کہ دیکھنے والا منظر ہے۔لوگ بیس ہزار سے زائد کرسیاں لیکر
بھاگ گئے ہیں۔مجبوراً ٹی وی چینلز پر یہ منظر دیکھا ۔یہ اپنی نوعیت کا بے
مثال واقعہ تھا۔آج تک نہ سنا اور نہ دیکھا کہ کسی سیاسی جلسے کے بعد لوگوں
نے اس طرح کا کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہو۔یہ واقعتا ایک ورلڈ ریکارڈ ہے
اسے ضرور گینز بک میں آنا چاہیے۔بلوچستان پر کالم تو نہ لکھ سکایہ صورتحال
دیکھ کر تکلیف ضرور ہوئی۔
قصور مشہور صوفی بزرگ بلھے شاہ
کا شہر ہے ۔سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری سمیت مسلم لیگ ق کے سابقہ
اراکین قومی، صوبائی اسمبلی اور وزراءکی بڑی تعداد تحریک انصاف میں داخل ہو
چکی ہے۔تحریک انصاف اور عمران خان پر مجھے پہلا کالم لکھتے ہوئے سخت مشکل
پیش آئی سات بار کالم لکھ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا کہ کوئی ایسی بات نہ لکھوں
جس سے جماعت کے مخلص جوانوں اور نوجوانوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ہمارا یہ کام
خان صاحب نے خود آسان کر دیا ہے۔اب دیگر روایتی ، موروثی سیاسی جماعتوں کی
طرح تحریک انصاف پر لکھتے ہوئے بھی کوئی زیادہ دقت پیش نہیں آئے گی۔میں تو
خواہ مخوہ سنیئر صحافی نصرت جاوید اور بعض دیگر اینکر ز کوستا رہا ۔کہ کوئی
اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے پیچھے نہیں ہے۔یہ 15سال کی جدوجہد کے بعد خود
اسٹیبلش ہوئے ہیں۔مگر کیا کہیے ہم اسٹیٹس کو کوئی غلامی سے نہیں نکال سکتے
۔ہر قدم پر مصلحت کوشی ،سمجھوتے ہماری سیاست کا ناگزیر حصہ بن چکے ہیں۔ایک
لیڈر نہیں تبدیلی کےلئے لیڈرز کی ایک پور ی شپ چاہیے ہوتی ہے۔گذشتہ روز
معروف ٹی وی اینکر طلعت حسین سید کے پروگرام میں عمران خان صاحب نے ترکی کے
وزیرا عظم طیب اردگان اور ملائشیا کی تقدیر بدلنے والے مہاتیر محمد کو بجا
طور پر رول ماڈل کے طور پر پیش کیا۔مگر ان دونوں ممالک اور لیڈروں کی
تبدیلی کی جدوجہد کو بہت مرتبہ پڑھا ہے خان صاحب کی سیاسی جدوجہد، سوچ اور
ویژن کا ان رہنماؤں کی سیاسی جدوجہد، سوچ اور ویژن کو کوئی تقابل نہیں ہو
سکتا ہے۔
طیب اردگان16سال کی عمر میں
سیاست میں سر گرم ہو چکے تھے۔جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد ان لوگوں
نے رکھی ہے جن کے پیچھے تبدیلی کا ایک لمباسفر ہے انہوں نے کئی جماعتوں کے
ان لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا تھا جو برسوں سے آمریت کے ساتھ
نبردآزما رہے۔مگر خان صاحب کو مشرف صاحب کی ساری ٹیم کو اپنے آس پاس بٹھا
کے طیب اردگان جیسی تبدیلی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔مہاتیر محمد ایک چھوٹے سے
یونٹ سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا ان دونوں رہنماؤں میں اپنی کوئی
جماعت بنا کر خود ہی اس کے چیئرمین نہیں بنے بلکہ بہت نچلی سطح سے اپنے
سیاسی سفر کی ابتدا کی۔ان کے ساتھ تو برسوں کے وابستہ جو ان کے نظریات میں
ڈھل کر مانوس ہو چکے تھے۔۔۔تحریک کے کارکنوں اور خود عمران خان کے لیے یہ
لوگ تو اجنبی ہیں۔مجھے خدشہ ہے کہ تبدیلی کا یہ سونامی میاں اظہر کی طرح
عمران خان کو بھی اپنے ساتھ بہا نہ لے جائے۔
جو تھا نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
زیادہ نہیں صرف دو ماہ قبل کے
بیانات اور موقف پڑھ لیجئے گا آپ کو کتنی تیزی سے ناخوب، خوب ہوتا نظر آئے
گا۔یہاں تو بتدریج کا چکر ہی نہیں ہے لمبی لمبی چھلانگیں ہیں۔
گھر پہنچ کر صرف ایک کام کیا وہ
یہ کہ نصرت فتح علی خان کی آواز میں بلھے شاہ کا کلام سنتا رہا ۔اور یاد
وں کا دریچہ ایسا کھلا کہ میں2001ءکی ایک شب رات 2بجے بلھے شاہ کے مزار
پرموجود تھا۔ دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک صاحب ترنم میں پڑھ رہے تھے ۔بلھیا
کی جاناں میں کون
اِدھر اُدھر گھوم کر دیکھا تو کئی لوگ اپنی دھن ،مستی ،ساز اور ترنم میں بابے کا کلام پڑھ رہے تھے ۔کہیں سے آواز آرہی تھی ۔
میری بکل دے وچ چورنی۔میری بکل دے وچ چور
چوری چوری نکل گیا تے جگ وچ پے گیا شور