Friday 28 September 2018

بھگت سنگھ : 28 ستمبر 1907 تا 23 مارچ 1931


بھگت سنگھ 28 ستمبر 1907 کو ضلع لائل پور (فیصل آباد) کی تحصیل جڑانوالہ میں پیدا ہوا۔ 1919میں صرف 12 سال کی عمر میں وہ خود سانحہ جلیانوالہ باغ کی جائے وقوعہ پر چند گھنٹے کے بعد پہنچا تھا، جہاں برطانوی سرکار کے حکم پر نہتے لوگوں پر گولیاں چلا کر1500 افراد کو بے گناہ مار دیا گیا تھا اور جائے وقوعہ پرمقتولوں کا خون تازہ تھا۔
انقلاب کا راستہ بھگت سنگھ نے خود چنا تھا ۔ بھگت سنگھ کو اپنی زندگی سے زیادہ عزیز انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا تھی۔ اس کی سوچ انقلابی تھی، اس کا کہنا تھا کہ’’میں انقلاب کی علامت کو داغ دار نہیں ہونے دوں گا۔ میرے اصولوں کے سامنے زندگی کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘‘۔

نوجوان انقلابی بھگت سنگھ انگریز سامراج سے آزادی کی کوششوں کے دوران کئی بارگرفتار کیا گیا لیکن وہ کسی بھی قیمت پر اپنے نظریات کو بدلنے سے انکاری تھا۔

انگریز حکومت نے بھگت سنگھ کو تحریک آزادی ختم کرنے کے عوض راجباہ پاؤلیانی جڑانوالہ کے تمام چکوک کی زمین دینے کی پیشکش کی تھی مگر اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ "زمین ہماری ہے تم کون ہو جو ہمیں دیتے ہو۔ تم برصغیر کو چھوڑ دو۔ میری جدوجہد لوگوں کے حقوق اور دھرتی کی آزادی کے لیے ہے اپنے یا اپنے خاندان کے مفاد کے لیے نہیں"۔
بھگت سنگھ مہاتما گاندھی کا سخت گیر پیروکار تھا لیکن 20 فروری 1921 کو ننکانہ صاحب گوردوارا میں نہتے انسانوں کو تہ تیغ کیا گیا، اسی بنا پر وہ مہاتما گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک سے متنفر ہوگیا۔ اس کا ماننا تھا کہ "گولی کا جواب گولی سے ہی دیا جا سکتا ہے"۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب انصاف نہیں ملتا ہے تو بھگت سنگھ پیدا ہوتے ہیں۔

1928 میں برطانوی سائمن کمیشن جس میں ہندوستانیوں کی کوئی نمائندگی نہیں دی گئی تھی اس کی لاہور آمد کے موقع پر تحریک آزادی میں شامل جماعتوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے کسانوں کے انقلابی رہنما لالہ لجپت رائے زخمی ہوگئے۔ کچھ دن بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ بات بھگت سنگھ سے برداشت نہ ہوئی اور اس نے لالہ لجپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔

ایک دن اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ انگریز پولیس افسر ایس پی اسکاٹ پر حملہ کیا اور شناخت کی غلطی کی وجہ سے ایک دوسرا انگریز پولیس افسر ڈی ایس پی، جان پی سنڈریس مارا گیا ۔ بھگت سنگھ نے آٹھ اپریل 1929 کو اپنے ایک ساتھی باتوکشور دت کے ساتھ مل کر لاہور میں پنجاب اسمبلی میں، انقلاب زندہ باد، جئے ہندوستان، کے نعرے لگاتے ہوئے دو بم دھماکے کیے۔ اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح اسمبلی میں موجود تھے لیکن وہ اس حملے میں زخمی نہ ہوئے۔
ایک رات لاہور کی کشمیر بلڈنگ سے تمام انقلابی گرفتار کرلیے گئے۔ لاہور کے سینٹرل جیل کے کمرۂ عدالت میں بھگت سنگھ پر مقدمہ چلایا گیا۔ بھگت سنگھ اور باتوکشور دت اس سے قبل اسمبلی بم کیس میں سزا پا چکے تھے۔ مقدمہ تین سال تک چلتا رہا۔ بھگت سنگھ اور سکھ دیو کو سزائے موت کا حکم دیا گیا۔

بھگت سنگھ کو 23 مارچ 1931 کو ان کے انقلابی ساتھیوں کے ساتھ انگریز سرکار نے جب پھانسی دی تو اس کی عمر صرف 23 سال تھی، اس کے ساتھ پھانسی پانے والوں کی عمریں بھی زیادہ نہیں تھیں، سب نوجوان تھے۔
عام لوگوں کا ماننا ہے کہ جب تک آزادی کی تاریخ میں بھگت سنگھ کا نام نہ آئےتب تک پاک و ہندو کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو قرار دیا تھا ۔ برطانیہ کی کمیونسٹ پارٹی نے بھگت سنگھ کے مقدمے کے فیصلے پر سخت تنقید کی اور کہا کہ یہ فیصلہ سامراجی درندگی کا مظہر ہے ۔ گاندھی نے بھگت سنگھ کو حق پر قرار دیا لیکن اس کی پھانسی سے صرف چار دن پہلے 19 مارچ 1931 کو’عدم تشدد کا علمبردار‘ گاندھی نے اس وقت کے برطانوی وائسرائے لارڈ ارون کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، معاہدے کےلیے مذاکرات بھی کیے، اس دوران اگر وہ چاہتا تو رحم کی اپیل کر کے ان انقلابیوں کی زندگیاں بچاسکتا تھا۔

عوام میں اس معاہدے کے خلاف شدید نفرت اور غصہ تھا کیونکہ اس میں بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ کانگریس کے اہم رہنما ڈاکٹر سبھاش چندر بوس نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا تھا کہ ’’ہمارے اور برطانویوں کے درمیان خون کا ایک دریا اور لاشوں کا ایک پہاڑ کھڑا ہے۔ گاندھی کی جانب سے کیے گئے سمجھوتے کو ہم کسی صورت قبول نہیں کر سکتے‘‘۔

بھگت سنگھ ہر عہد کے نوجوانوں کا ہیرو رہے گا ۔

No comments:

Post a Comment